Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط7


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر7

ضیاء ماریہ کے گھر گیا۔ اس کی امی تھیں گھر ۔ضیاء نے ماریہ کا پوچھا تو وہ بولیں۔ 
بیٹا ماریہ گھر نہیں ہے۔ 
کہاں ہے وہ ضیاء نے برداشت سے پوچھا۔ 
بیٹا وہ آیی تھی پھر بولی مجہے اپنی دوست سے ملنے جانا ہے تو میں نے روکا نہیں۔
 اوکے آنٹی تھینکس۔ 
بھاگ گئی۔ کب تک اور کہاں بھاگو گی تم مجہے جانتی نہیں ہو۔غصہ میں گھر آ کر چیخا۔
 میری صفا کو مجھ سے چھینا تماری زندگی عذاب بنا دوں گا۔ 
پھر پریس میں گیا۔ مجہے اطلاع گم شدگی چہپوانی ہے جن کو ملے دس لکھ انعام۔
 پورا پتا دیتا ہے اور ساتھ تصویر جو کے اسنے اپنے موبائل میں رکھی تھی۔
 اب کیا کرو گی ماریہ۔ غصہ اور درد میں ہنسا۔ 
ماریہ سنو اسکی دوست گھبرائی ہوئی تھی۔ وہ اخبار میں تمہارے بارے میں چھپا ہے دیکھو۔ 
ماریہ پڑھتی گئی اسکا رنگ پیلا زرد پڑتا گیا۔ 
اپنی دوست کے گلے لگی اب کیا کروں گی۔
 میں بے قصور ہوتے بھی یہ سب۔ 
انکل آنٹی نے پڑھ لیا تو کیا ہوگا۔ کیا کروں میں۔ باہر کیسے نکلوں گی۔
 اسکی دوست نے سر پکڑا ہوا تھا خود ماریہ کی حالت بری تھی۔
 ماریہ اب تمہیں گیٹ اپ چینج کر کے باہر جانا پڑے گا تا کہ کوئی پہچان نا سکے ورنہ اتنی رقم پر تو جس نے دیکھا ایک منٹ میں وہ ضیاء  تمہارے سامنے ہوگا۔
 پر کیسے۔ آج جاتی ہوں خاص مال میں۔ 
لاتی ہوں کچھ۔ سوچ رہیں تھیں دونوں۔ 
شاجین کھڑا ہنس رہا تھا اپنے دوستوں اور نوکروں میں کھڑا۔ 
Bagaimana saya merosakkan hidup anda Keluarkan kebahagiaan anda Sekarang terus menangis Zia selamanya. 
Ini adalah akhir daripada bermain-main dengan saya. 
Anda tidak perlu membunuh. ہاہاہا۔
کیسے تباہ کردی میں نے تمہاری زندگی۔ 
چھین لیں تمہاری خوشیاں۔ اب روتے رہو ضیاء ہمیشہ کے لئے۔
 مجھ سے پنگا لینے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
 تمہیں مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ہاہاہا ۔
سب ہنس دیے شاجین کے ساتھ۔ 
بہت سارے ماسک اور گیٹ اپ کا سامان پڑا تھا۔ ماریہ کچھ دن پریکٹس کرتی رہو۔ پھر اگے کا کچھ سوچیں گے۔
 میں نے ماما بابا کو بتا دیا ہے سب۔
 انہوں نے تسلی دی ہے۔
 اب اطمینان رکھو۔ 
تھینکس یار۔ ماریہ پھر صفا کو یاد کر کے رو رہی تھی۔ 
پھر روتے روتے چیک کرنے لگی اپنے چہرے کے مطابق سب کچھ۔ 
کچھ پتا لگا صفدر۔ضیاء پوچھ رہا تھا۔ 
 نہیں یار۔ 
آسمان نگل گیا یا زمین۔ 
کہاں بھاگی ہوگی وہ۔
ضیاء پہلے دن سے ماریہ کے پیچھے تھا پر بہت کوشش کے بعد بھی ناکام تھا۔ 
ایک تو وہ اپنے گھر بھی تو نہیں آیی تھی۔ ضیاء حیران تھا کہ گئی کہاں۔ جہاں جہاں اس کے  کانٹیکٹس تھے ہر جگہ سے پتا کرا لیا تھا اس نے۔  
کچھ دن بعد ماریہ ایک الگ روپ میں جا رہی تھی ایک جگہ جو اس کے خیال میں بہت لازمی تھی اس کے لئے۔
 گندمی ماسک نتھنوں میں سپرنگ ڈال کر کچھ موٹا کیا ہوا بال کی کٹنگ بواہے ٹائپ۔ وہ ایسے کہ بالوں کو سختی سے گوندھ کر اسنے پکی وگ لگایی جو مشکل سے ہی ہٹنے والی تھی۔ 
اس روپ میں تو کوئی اپنا بھی اسکو نہ پہچان پاے۔ سر سے ملنا ہے سیکرٹری سے بولی۔ 
اوکے ویٹ میڈم۔
 جایں بات کرنے کے بعد بولی۔ 
کرسی پر جا کر بیٹھی۔ سر مجہے وہ سب کچھ سیکھنا ہے جو آج کے زمانہ میں ایک عورت کے لئے ضروری ہے۔ 
اصل میں بم ٹریننگ جب شروع کراتے ہیں تو 6 7 سال سے بھی کم ایج کے بچے لیتے ہیں کیوں کہ جو ہم سکھاتے ہیں وہ مشکل ہوتا ہے۔ 
آپ جتنی 
ایج کے لئے تو بہت مشکل کام ہے۔ 
سر میں کر لوں گی پلیز ۔ماریہ نے منت کی۔
 اوکے آپ کو میں تجربہ کے طور پر ایک ماہ دیتا ہوں اس میں دکھوں گا آپ کر سکتی ہیں یا نہیں ورنہ آپ کو جانا ہوگا۔ 
اوکے سر منظور ہے مجہے۔
 تو پھر کل سے آ جایں۔ 
نہیں سر آج سے ابھی سے۔ ایک ایک دن قیمتی ہے۔
 چلیں جایں پھر کلاس میں۔ تھینکس بولی اور اب وہ کلاس میں جا رہی تھی ایک ماہر فائٹر بننے۔
اسکو مقابلہ کرنا تھا صفا کے دشمنوں کا۔
 جس کے لئے وہ ہر لحاظ سے خود کو تیار کرنا چاہتی تھی۔ شاجین نے خفیہ رہ کر پھر سے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔
 پہلی دفع ضیاء ہارا تھا اس دفعہ کیوں کہ اس نے دماغ کی جگہ دل سے کام لیا تھا۔ 
ہر وقت پریشان رہنے سوچنے کی وجہ سے مار کھا رہا تھا۔ کوئی کام اب ڈھنگ سے نہیں بو پاتا تھا۔ 
آفیسرز پریشان تھے ایک قابل شخص کے لئے جسکی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہو چکا تھا۔
 شاجین کو جب ضیاء کی رپورٹ ملتی تو وہ خوش ہو کر جشن مناتا ۔
ماریہ کی پہلے ہفتہ کی ٹریننگ میں سٹ اسٹینڈ ۔لیٹ کر بازو کے زور پر بریسٹ کو اوپر نیچے کرنا ۔دوڑ لگانا اور اونچی جگہ سے کودنا ۔
پہلے تھک جاتی سوچتی مشکل ہے۔
 نہیں ۔۔۔مجہے اپنا مقصد ہر حال میں پورا کرنا ہے چاہے جو ہو جائے۔
 میں نے صفا کو کھویا۔ گھر چہوڑا۔ ماں باپ کے پیار کو ترس رہی۔ مجھ پر داغ لگا۔ میں کروں گی۔
 ہاں کروں گی۔
 پھر وہ وقت بھی آیا جب آرام کا وقت ہوتا تھا پر وہ پریکٹس میں ہوتی تھی۔
 کھانے پینے کا ہوش نہیں ہوتا تھا۔
 وہ مرحلہ آیا جب اونچی جگہ سے کود کر چیزوں کو پکڑ کر سہارا لینا تھا ورنہ جان بھی جا سکتی تھی۔
 دوڑ کر درخت پر چڑنا ۔دوڑ کر دیوار پر چڑنا اور قلابازی لینا دیوار کے زور پر۔ سیدھی الٹی قلابازی مسلسل لیتے رہنا۔ 
ماریہ ہمت نا ہاری۔ 
لڑائی کے تمام طریقے سیکھنے میں اسکو 6 ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا۔
 اور ویسے سیکھنے میں سال ہونے والا تھا۔
 اب تو مقابلے میں جیتنے لگی تھی۔
 اب  اسکی دوست ثنا کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ لڑکا کزن تھا اور پولیس میں تھا۔
 فنکشن ھوے اور ایک دن ثنا پیا سدھار گئی۔ 
اب ثنا کے بھائی کو بلا رہے تھے اس کے امی ابو جو کے باہر رہتا تھا۔ کیوں کے وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔ 
ماریہ تھی بھی پر اپنوں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔
 پھر ان کے بیٹے نے کہا ایک ماہ ٹک آنے کا۔ 
وہ سب بہت خوش تھے انکو دیکھ کر ماریہ بھی۔ 
ضیاء صفا کی تصویر لے کر بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا ۔کیوں مجہے جلدی چھوڑ کر چلی گئی۔
 میری ساری خوشیاں بھی لے گئی تم۔ 
مجھے جینے کا شوق نہیں۔
 جی رہا ہوں تو تمہارے قاتل کو انجام ٹک پہنچانے کے لئے۔
 صفا کے بعد وہ الگ اپنی دنیا میں رہتا۔ ثنا کا بھائی امجد آ چکا تھا۔ 
سنجیدہ مزاج پر چہرے پر بھی بے انتہا سختی طاری تھی ۔
ماریہ اور اس کی ملاقات سر سری ہوئی۔پھر ماریہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ 
امجد کو بھی ماریہ کے متعلق نہیں بتایا گیا بس تھوڑا بہت۔
 اتنے دنوں میں ضیاء کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ 
اس نے اخبار میں اور نیٹ پے یہ افواہ پھیلایی کہ ماریہ کی امی فوت ہو گی۔
 جنازہ اتنے بجے ہوگا۔ 
جیسے ماریہ نے دیکھا ایک کسک سی ہویی اس کے دل کو۔ رونے لگی۔
 میری ماں بھی چلی گی۔ 
مجہے جانا ہے ان کے پاس۔ 
گھر والوں نے سمجھایا کہ یہ چال لگتی ہے ہمیں پر وہ عورت ہی کیا جو دل کی نا سنے چل پڑی۔
امجد بھی احتیاط کے طور پر ساتھ چل پڑا جس کا ماریہ کو پتہ نہیں تھا۔ 
ماریہ نے سہی طور پر خود کو تیار کیا۔
 ادھر ضیاء نے بھی مکمل احتیاط کا کہ رکھا تھا۔ ماریہ ایک سال بعد اپنے شہر میں داخل ہوئی۔ 
رونا آ رہا تھا اسکو۔ 
جب کچھ فاصلہ رہا تو سوچنے لگی کہ ضیاء ابھی بھی اس کے پیچھے ہوگا یا نہیں۔ یا وہ بھول چکا ہوگا۔ 
جیسے ہی اس نے گھر میں قدم رکھا۔

   1
0 Comments